دریائے سندھ کی اندھی ڈالفن

ڈالفن اور وہیل مچھلیاں  نہیں ، مگر مچھلی نما ایک میمل یعنی دودھ دینے والے جانور ہیں  جو عام طور پر سمندر میں پائے جاتے ہیں ۔اس کی چار اقسام ایسی بھی ہیں  جو کہ سمندر کے نمکین پانی کی بجائے دریائوں  کے تازہ پانی میں  ہی زندہ رہ سکتی ہیں ۔ تازہ پانی میں  رہنے والی اِن اقسام میں  ایک کا نام   "بوٹو " ہے جو جنوبی امریکہ میں  دریائے ایمیزون میں  پائی جاتی ہے ، دوسری کا نام "بے جی" ہے جو چین میں  دریائے ینگ زی میں  پائی جاتی ہے ، ڈالفن کی تیسری قسم  "سو سو " ہے جو بھارت، نیپال اور  بنگلا دیش کے دریائے میگنا اور دریائے گنگا کے دریا ئی نظام میں  پائی جاتی ہے ، جب کہ دریائوں  میں  پائی جانے والی ڈالفن کی چوتھی قسم بُلھن ہے جو پاکستان میں  دریائے سندھ میں  پائی جاتی ہے۔  دریائوں  میں  پائی جانے والی ڈالفن کی اِن اقسام کی بقاٰ کو شدید خطرات لا حق ہیں ۔ جس کے باعث ان کی تعداد میں  روز بروز کمی ہوتی جا رہی ہے۔ اِن میں  سے چین کے  دریائے ینگ زی کی ڈالفن اَب معدوم ہو گئی ہے۔

اِنڈس ڈالفن کہا ں  پائی جاتی ہے اور اس کی تعداد کتنی ہے؟

ماہرین حیاتیات کی تازہ ترین تحقیق کے مطابق بُلھن یعنی اِنڈس ڈالفن کی کل تعداد لگ بھگ ایک ہزار چار سو کے قریب ہے ۔ جو سب سے زیادہ گدو بیراج اور سکھر بیراج کے درمیانی علاقے میں  پائی جاتی ہیں  جبکہ دوسری بڑی تعداد تونسہ بیراج اور گدو بیراج کے درمیان ہے۔ اس کے علاوہ اِن کی کچھ تعداد چشمہ اور تونسہ بیراج کے درمیان اور سب سے کم تعداد سکھر بیراج کے نیچے کے علاقہ

میں ہے

جو کہ بقائے ماحول کی عالمی انجمن ہے ،نے اسے جانوروںIUCN اِنڈس ڈالفن کی اس کم تعداد اور اس کو لا حق خطرات کے پیش نظر

  کی اس فہرست میں  شامل کیا ہے جن کی بقاؑ کو شدید خطرہ لا حق ہے اور اگر اِن کو بچانے کی کوشش نہ کیگئی تو اِس بات کا امکان ہے کہ یہ ڈالفن بھی  دریائے ینگ زی کی ڈالفن کی طرح  اِس دنیا سے معدوم ہو جائے گی۔

 تاریخی شواہد کے مطابق انیسوی صدی کے وسط تک اِنڈس ڈالفن دریائے سندھ میں  اٹک کے مقام تک پائی جاتی تھی یہاں  تک کہ اِسے دریائے سندھ کے معاون دریائوں  میں  بھی دیکھا گیا تھا۔ مگر پاکستان اور بھارت کے مابین طے پانے والے سندھ طاس منصوبے کے تحت بننے والے بیراجوں  کے باعث اِنڈس ڈالفن کی افزائش و نسل کو شدید نقصان پہنچا ہے ۔ اب اس کی بچی کھچی تعداد ان بیراجوں  کے درمیان چھوٹے چھوٹے گروہوں میں  محدود ہو کر رہ گئی ہے۔

اِنڈس ڈالفن کیوں  منفرد ہے؟

 ماہرین حیاتیات کے مطابق اِنڈس ڈالفن باقی ڈالفن اقسام سے اِس لیے بھی منفرد ہے کہ یہ ایک نابینا ڈالفن ہے۔ آ پ کو یقینا یہ جان کرحیرت ہو گی ، مگر یہ ایک حقیت ہے کہ بُلھن صرف روشنی اور اندھرے میں  فرق کر سکتی ہے ۔ یہ ہزار ہا سال سے دریائے سندھ کے مٹیالے پانیوں  میں  رہنے کا نتیجہ ہے جہاں  آنکھیں  ہوں  بھی تو شاید کچھ نظر آنا مشکل ہے۔فطرت نے اِنڈس ڈالفن کی بینائی کے مسئلے کو اس طرح سے حل کیا ہے کہ اسے گدلے پانی میں  آواز کی لہروں  سے پیدا ہونے والی گونج کی مدد سے راستہ تلاش کرنے اور خوراک کے شکار کے لئے ایک ایسی صلاحیت عطا کی ہے جسے "  سُونار سسٹم"  کہتے ہیں ۔ اندھرے میں  دیکھنے اور محسوس کرنے کے اِس حساس تکنیکی نظام کے تحت یہ ڈالفن پانی میں  مخصوص آوازیں  پیدا کرتی ہے جن کی گونج سے اسے اپنے گردو پیش کے ماحول اور اس میں  پائی جانے والی اشیاؑ کا بالکل ٹھیک ٹھیک پتہ چل جاتا ہے۔یہ آواز کی لہروں  کو سر کے سامنے کے حصے سے نکالتی ہے اور نچلے جبڑے سے اُن کی گونج محسوس کرتی ہے اس طرح نہ صرف اپنا راستہ اور شکار تلاش کرتی ہے بلکہ اس کے علاوہ کشتیوں  ، دوسرے جانوروں  اور ساتھی ڈالفن کی موجودگی کو بھی محسوس کر لیتی ہے۔ تقریباََ  پانچ کروڑ سال سے زائد پر محیط قدرت کے اِس تخلیقی عمل میں  اِس کی آنکھوں  کے عد سے بالکل غائب ہو گئے ہیں ۔اور اب آنکھوں  کی جگہ پر محض نقطے جیسے نشان رہ گئے ہیں ۔

 کیا یہ ایک مچھلی ہے یا میمل؟

ٍُِِّاگرچہ دریائے سندھ کی ڈالفن مچھلی کی طرح دکھائی دیتی ہے دراصل یہ ایک دودھ پلانے والا آبی جانور ہے۔یہ بالکل انسانوں  کی طرح سانس لیتی ہے اور بچوں  کو جنم دیتی ہے جو چھ ماہ تک اس کے دودھ پر پلتے ہیں ۔مکمل آبی زندگی بسر کرنے کے باعث اس کے جسم کی ساخت مچھلی جیسی ہو گئی ہے۔ مگر یہ دودھ پلانے والا حیوان ہے۔ مچھلی کی طرح اس کے گلپھڑے نہیں  ہوتے اس کے بر عکس یہ ہماری طرح پھیپھڑوں  سے سانس لیتی ہے

کہتے ہیں Blow holeمگر اس کی ناک کا سوراخ سرکے اوپر ہوتا ہے جسے

یہ کیسی دکھائی دیتی ہے؟

اِس کی تصویر کو غور سے دیکھئے۔ جب آپ ڈالفن کو دیکھتے ہیں  تو یہ اتنی سُرعت سے تیرتی ہوئی گزر جاتی ہے کہ اس کا دیدار لمحہ بھر کے لے ہی ہوتا ہے۔

رنگت

اس کی رنگت گلابی مائل سُر مئی برائون ہوتی ہے۔

قدوقامت

زیادہ سے زیادہ ساڑھے پانچ سے ساڑھے چھ فٹ۔ نَر ڈالفن مادہ کے مقابلے میں  چھوٹے ہوتے ہیں ۔

دانت

بالغ ڈالفن کے جبڑے یا تھوتھنی کے دونوں  اطراف میں ٠ ٣ سے٦ ٣ عدد نہایت تیز دانت ہوتے ہیں ۔ تھوتھنی کے آگے دانت بہت

                   پتلے ، لمبے اور نوکیلے ہوتے ہیں ۔

جبڑے کی ساخت

دریائی ڈالفن کے جبڑے سمندری ڈالفن کی نسبت کافی لمبے ہوتے ہیں  یہ اس کے جسم کی کل لمبائی کاپانچواں  حصہ ہو سکتے ہیں ۔

گردن

دوسری ڈالفن کے بر عکس اس کی گردن قدرے لچکدار ہوتی ہے جو دریا کے پیچیدہ ماحول میں  اسے نقل و حمل میں  مدد دیتی ہے۔

فلپرز

ڈالفن کے " فلپرز"  چپے کافی چوڑے ہوتے ہیں  جسے یہ اپنا راستہ بنانے اور تیز پانیوں  میں  حرکت کرنے میں  استعمال کرتی ہے۔

دریائے سندھ کی ڈالفن کیسے تیرتی ہے؟

یہ عام ڈالفن کی طرح اپنی دُم کو اُوپر نیچے حرکت دے کر تیرتی ہے۔ مگر جب دریا کی تہہ کے نزدیک جاتی ہے تو اپنے پہلو کے بل ہو جاتی اسطرح اِسکا سائیڈ فلپر دریاکی تہہ کی جانب ہوتا ہے اور دُم کو دائیں  بائیں  حرکت دیتی ہے اس طریقے سے یہ کم گہرے پانی میں  بھی تیر سکتی ہے۔ ڈالفن کو ایک سے ڈیرھ منٹ بعد سانس لینا پڑتا اسکے لے یہ پانی کی سطح پر ابھرتی ہے اور سانس لینے کے سُوراخ سے سانس لیتی ہے اور پھر واپس پانی میں  غائب ہو جاتی ہے۔ پانی سے باہر پہلے اسکا سر ، پھر جسم اور پھر دُم ایک قوس میں  گزرتے ہیں ۔ بُلھن کے زےرِ آب پہلو پر تیرنے کا یہ انداز سوائے دریائے گنگا کی ڈالفن کے کسی اور ڈالفن میں  نہیں  ہے۔

بُلہن معدوم ہونے کے خطرہ سے کیسے دوچار ہے؟

دریا کے پانی میں  کمی

جب سے سندھ طاس کا نہری نظام بنا ہے تغیانی کے دنوں  کے علاوہ دریائوں  میں  پانی کی کمی ہونے لگی ہے اور جب سے بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی مزید تقسیم ہوا توبُلھن کے مسکن کئی دریائوں  سے ختم ہو گئے اور خصوصاً سردیوں میں  دریائے سندھ میں  پانی کی سطح بھی مزید کم ہونے لگی ۔ حتیٰ کہ سردیوں  میں  دریائے سندھ میں  پانی کی سطح اتنی کم ہو جاتی ہے کہ ڈالفن کے لے نا کافی ہوتی ہے۔

آب پاشی کی نہروں  میں  پھنس جانا

 بعض اوقات بُلھن نہروں  میں  یا دریا کی تنگ شاخوں  میں  چلی جاتی ہے اور پھر دریا میں  واپس نہیں  جا سکتی ۔ آخر کار وہ ان نہروں  اور تنگ شاخوں  میں  ہی پھنس کر مر جاتی ہے۔

ماہی گیروں  کے جال میں  پھنس جانا

ماہی گیروں کا مچھلیاں پکڑنے کا موجودہ طریقہ کار بھی ڈ١لفن کی تعداد کو کم کرنے کا باعث ہے۔ اکثر یہ ماہی

 گیروں  کے مچھلیاں  پکڑنے کے لےے بچھائے ہوئے جالوں میں بھی پھنس کر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں ۔

آبی آلودگی

 کئی جگہ کارخانوں کا زہر آلود پانی اور شہریوں کے گندے نالے دریائوں  میں بے دریغ ڈال دیے گئے ہیں  ۔ اسی طرح زرعی علاقوں  میں  زہریلے سپرے اور کیمیائی کھاد جب بارش کے پانی میں  گھل کر دریائوں  میں  پہنچتے ہیں  تو آبی حیات بُری طرح متاثر ہوتی ہے اور مچھلی ختم ہو جاتی ہے اوربُلھن کی خوراک میں  کمی آ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اِن زہریلی دوایوں  کے کیمیائی اجزائ بُلھن کی تندرستی ختم کرتے ہیں  جس سے ان کی پیداواری صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔

چھوٹے گروہوں  میں  تقسیم

 دریائے سندھ پر مختلف جگہوں  پر ڈیم اور بیراج بننے کے باعث انڈس ڈالفن مختلف چھوٹے گروہوں  میں  بٹ کر رہ گئی ہے۔ چھوٹی آبادیوں  میں  ان کے لے زندہ رہنا اور اپنی نسل کو آگے بڑھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ جس کانتیجہ ان کی جسمانی کمزوریوں اور بد ہیتی کی صورت میں  نکلتا ہے۔

جسمانی اجزا ئ کا ادویات میں استعمال

 بعض علاقوں میں ڈالفن کا شکار کرکے اس کے جسم کی چربی ادویات اور دیسی صابن بنانے کے کام بھی لائی جاتی ہے اوراِسکے جسمانی اعضاؑ بھی فروخت کئے جاتے ہیں  جو مختلف دیسی ٹوٹکوں  میں  استعمال ہوتے ہیں ۔

 اِنڈس ڈالفن ایکو ٹورازم  پراجیکٹ

 سسٹین ایبل ٹورازم فائونڈیشن پاکستان نے یو ایس اے سمال گرانٹس اینڈ ایمبیسڈرذ فنڈ پروگرام کی مالی معاونت سے اِنڈس ڈالفن ایکو ٹورازم کے منصوبے کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد دریائے سندھ کے ایکو سسٹم کے بارے میں  شعور اورآگاہی پیدا کرنا اور یہاں  موجود  جنگلی حیات کے منفرد قدرتی ٹھکانوں  یا بسیروں  کے بارے میں  معلومات فراہم کرنا ہے۔ اس منصوبے  کے ذریعے سیاحوں  کو روایتی کشتیوں  پر سفر کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ان کشتیوں  پر آپ دریائے سندھ میں  قدرتی ماحول کو متاثر کیے بغیر دور تک جا کر ڈالفن مچھلی کو قریب سے دیکھ سکتے ہیں  اور اس طرح اس نرالے جانور کو سمجھنے میں  مدد بھی ملتی ہے۔ اِس منصوبے کا دوسرا اہم مقصد ماہی گیروں  میں  ایکو ٹورازم کی سمجھ بوجھ پیدا کرنا اور اُن کو ڈالفن کے تحفظ کے کی طرف مائل کرنابھی ہے۔

اِس منصوبے کے ذریعے ماہی گیروں  کی ایک چھوٹی کو آپریٹو سوسائٹی کام کر رہی ہے جو اِس ایکو ٹورازم منصوبے کی آمدنی سے فائدہ اٹھاتی ہے۔

 سسٹین ایبل ٹورازم فائونڈیشن پاکستان اِن ماہی گیروں  کو تکنیکی مہارت اور رہنمائی فراہم کر رہی ہے۔ تاکہ ماہی گیر اپنی کشتیوں  کی حالت بہتر بنا سکیں ، اس کے علاوہ یہ سیاحوں  کی حفاظت اور ماہی گیروں  کو باقاعدہ تربیت یافتہ ٹورسٹ گائیڈ بنانے میں  مدد دیتی ہے۔

 سسٹین ایبل ٹورازم فائونڈیشن پاکستان ایکو ٹوراز م کے اِس منصوبے کو پاکستان میں  اور بیرون ملک مقبول کرنے کے لئے بھی کوششیں  کر رہی ہے۔ جیسے جیسے  دریائے سندھ کی ماحول دوست سیاحت مقبول ہو گی ماہی گیروں  میں  اِنڈس ڈالفن کو بچانے کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ اس کے ساتھ ساتھ  ماہی گیروں  کے بنائے ہوئے ہینڈی کرافٹس مثلاً   کڑھائی اور تنکوں  کی ٹوکریاں  بنانے اور انہیں  مار کیٹ کرنے کے نظام کو بہتر بنانے میں  بھی مدد ملے گی ۔ مختصراََ یہ کہ  یہ منصوبہ ڈالفن کے تحفظ کے لئے کام کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی ماہی گیروں  کو اِس بات کی تحریک دے رہا ہے کہ وہ دریائے سندھ کی نابینا ڈالفن کے محافظ بن جائیں۔

مزید معلومات اوراِنڈس ڈالفن بوٹ سفاری کے ذریعے سیر کا پرو گرام بنانے کے لےے اس پتہ پر رابطہ کریں ۔

 سسٹین ایبل ٹورازم فائونڈیشن پاکستان

مکان نمبر٩ ، گلی نمبر ١١ ،  بنی گالہ اسلام آباد پاکستان۔

رابطہ نمبر

 ٓآفس فون 051-2612448،  موبائل 0300-9742158

ویب سایئٹ

www.stfp.org

ای میل

 stfpak@gmail.com

Highlights

Wildlife Department, Fisheries Department, Irrigation Department, Forest Department, Education Department, WWF Pakistan and other local NGOs also participated in these events.

STFP Launches Ecotourism Project for Conservation of Unique Indus River Dolphin

09 December | 2014

Hunting of Bulhan in order to extract oil which was used in medicines by locals was reported in history

On this occasion, community activists and project field staff jointly presented a street theater performance on Indus River Dolphin

ADOPT A DOLPHIN

Useful web links

Feedback

Contact Us

Testimonials

This website is made possible by the support of the American people through the United States Agency for International Development (USAID). The contents are the sole responsibility of Sustainable Tourism Foundation Pakistan and do not necessarily reflect the views of USAID or the United States Government.

Copyright@2015 STFP